The Lottery Ticket By Anton Chekhov (1887)
لاٹری ٹکٹ — از اینٹون چیخوف (1887)
ایک شام، جب سردی تیز تھی اور باہر ہوائیں چل رہی تھیں، ایوان دیمتریچ نامی ایک کلرک دفتر سے گھر آیا اور حسبِ معمول صوفے پر بیٹھ گیا۔ اُس کی بیوی، مائشا، کھڑکی کے پاس بیٹھی اون بُن رہی تھی۔
ایوان نے اخبار اٹھایا اور ایک کونے میں پرانی لاٹری کے نمبرز دیکھے۔ اس نے یونہی بیوی سے پوچھا،
"مائشا، کیا تم نے وہ لاٹری ٹکٹ ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے؟"
مائشا نے مسکرا کر کہا،
"ہاں، میرے پرس میں ہے۔ کیوں؟"
"ذرا نمبر تو دیکھو۔ ہو سکتا ہے جیت گئے ہوں۔"
مائشا جلدی سے پرس لائی اور ٹکٹ نکالا۔ ایوان نے اخبار سے نمبر پڑھا:
“Series 9499, Number 26.”
مائشا نے بے تابی سے ٹکٹ پر نمبر دیکھا اور حیرت سے چیخی:
"یہی ہے! یہی نمبر ہے!"
دونوں ایک لمحے کے لیے خوشی سے پاگل ہو گئے۔ ایوان نے کانپتی آواز میں کہا،
"پہلا انعام کتنے کا ہے؟"
مائشا نے جلدی سے اخبار دیکھا،
"پچھتر ہزار روبل!"
اب ان دونوں نے تصور میں وہ دولت خرچ کرنا شروع کی۔ ایوان نے سوچا: "میں نوکری چھوڑ دوں گا، دیہی علاقے میں جا کر زمین خریدوں گا، کوئی کاروبار شروع کروں گا۔۔۔"
مائشا بولی، "ہم شہر سے باہر ایک بڑا گھر لیں گے، میں نئی ڈریسز خریدوں گی، بچوں کو بہترین اسکول میں داخل کروائیں گے۔۔۔"
مگر جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے، ان کے خیالات بدلنے لگے۔ ایوان کے دل میں خیال آیا کہ مائشا شاید اسے چھوڑ دے گی جب اتنی دولت آ جائے گی۔
"شاید وہ صرف اپنے خاندان پر خرچ کرے، مجھے نظر انداز کر دے۔۔۔"
اور مائشا کے دل میں بھی وسوسے آنے لگے:
"یہ دولت تو اس کے نام پر ہو گی، وہ مجھے ایک پیسہ نہیں دے گا۔ یہ آدمی تو خودغرض ہے۔"
خوشی اب شک میں بدلنے لگی۔ ایوان نے اچانک جھنجھلا کر کہا:
"یہ سب فضول باتیں ہیں۔ ایسی قسمت کہاں۔۔۔ تمہارے پاس کبھی قسمت نہیں رہی!"
مائشا نے بھی ترش لہجے میں جواب دیا:
"تم بھی کوئی شہزادے نہیں ہو، تمہارے جیسے ہزاروں مل جاتے ہیں!"
غصے اور بدگمانی کے عالم میں ایوان نے پھر سے اخبار اٹھایا اور دوبارہ دیکھا۔
نمبر دراصل تھا:
Series 9499, Number 46.
نہ کہ 26۔
اس کا مطلب تھا: وہ جیتے ہی نہیں تھے۔
ایک طویل خاموشی چھا گئی۔
ایوان نے اخبار ایک طرف پھینکا، کراہ کر بولا:
"فضول کی امیدیں۔۔۔"
مائشا نے دھیمی آواز میں کہا:
"چلو اون بُننے دو مجھے۔۔۔"
دونوں اپنے اپنے خیالات میں گم ہو گئے، جیسے ایک لمحے کی امید نے انہیں ان کے اصل جذبات دکھا دیے ہوں — شک، لالچ، خودغرضی۔
:اخلاقی سبق
یہ کہانی انسانی فطرت کو بے نقاب کرتی ہے۔ کیسے دولت کی تمنا ہمیں خوشی کی بجائے بدگمانی، لالچ، اور نفرت کی طرف لے جا سکتی ہے۔
Comments
Post a Comment