The Guardians of Lore

Image
 The Guardians of Lore داستان کے محافظ زمانہ قدیم کی بات ہے، جب کہانیاں صرف کہانیاں نہ تھیں بلکہ ان میں جادو، طاقت، اور علم پوشیدہ ہوتا تھا۔ ہر خطے میں ایک خاص داستان لکھی جاتی، اور اس داستان کی حفاظت ایک محافظ کرتا — جنہیں "محافظینِ داستان"  کہا جاتا۔ The Guardians of Lore یہ محافظ عام انسانوں جیسے نظر آتے، لیکن ان کے دل میں خاص روشنی ہوتی — وہ روشنی جو سچ، علم اور تصور کو زندہ رکھتی۔ The guardians of lore moral of the story :باب 1: راز کی کتاب ایک خاموش گاؤں "نورستان" میں، ایک کم عمر لڑکا، عارف، کتب خانے میں کام کرتا تھا۔ وہ ہر روز پرانی کتابیں جھاڑتا، انہیں ترتیب دیتا، لیکن ایک دن اسے ایک موٹی، گرد آلود کتاب ملی جس پر لکھا تھا: "کتابِ روایت – صرف اُن کے لیے جو سچائی کے متلاشی ہوں" کتاب کو کھولتے ہی الفاظ چمکنے لگے، اور ایک سادہ سا نقشہ سامنے آیا۔ نقشے کے ساتھ ایک جملہ لکھا تھا: "جب خواب حقیقت بننے لگیں، جان لو کہ تمہاری آزمائش شروع ہو چکی ہے۔" عارف کو یوں لگا جیسے کتاب نے اسے بلایا ہو۔ The guardians of lore in english :باب 2: چھپا ہوا...

Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar. Tooti Hui Sadak. Tooti Hui Sarak. Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar In English .

کہانی: ٹوٹی ہوئی سڑک

:مصنف: محمد جمیل اختر

شہر کے بیچوں بیچ ایک پرانی، شکستہ، دھول سے اَٹی ہوئی سڑک تھی۔ نہ اس پر کوئی روشنی تھی، نہ نشان، نہ کوئی منزل۔ لوگ اسے "ٹوٹی ہوئی سڑک" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ سڑک کسی زمانے میں بڑی اہم تھی، شاہراہ کہلاتی تھی، مگر اب صرف ایک یادگار بن کر رہ گئی تھی۔

 Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar In urdu . 

دنیا آگے بڑھ چکی تھی، نئی سڑکیں، پل، انڈر پاسز اور بائی پاسز بن چکے تھے۔ شہر کے نقشے میں اب اس سڑک کی کوئی خاص جگہ نہ رہی تھی۔ لیکن کچھ لوگ تھے جو اب بھی اس سڑک سے جُڑے ہوئے تھے۔

ان میں سب سے نمایاں ایک بوڑھا شخص تھا، جو ہر روز صبح سویرے اپنے ہاتھ میں جھاڑو لے کر سڑک پر آتا، گرد صاف کرتا، ٹوٹی ہوئی اینٹوں کو سلیقے سے کناروں پر رکھتا، اور پھر ایک پرانی بینچ پر بیٹھ کر سڑک کو تکتے ہوئے گھنٹوں سوچتا رہتا۔ لوگ اس پر ہنستے، کہتے:
"بابا! یہ سڑک اب کسی کام کی نہیں۔ چھوڑ دو یہ ضد!"
لیکن بابا صرف مسکرا دیتا اور دوبارہ صفائی میں لگ جاتا۔

بابا کا ماننا تھا کہ سڑکیں صرف راستے نہیں ہوتیں، یہ یادیں ہوتی ہیں، خواب ہوتی ہیں، ان پر کبھی لوگوں کے قافلے چلے تھے، بچوں کی ہنسی گونجی تھی، نوجوانوں نے خواب بُنے تھے، اور بزرگوں نے ماضی کو سینے سے لگایا تھا۔

ایک دن شہر کے کچھ ترقی پسند نوجوان آئے۔ انہوں نے بابا کو بتایا کہ اب حکومت نے اس علاقے کو گرا کر ایک شاپنگ مال بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پرانی سڑک، پرانے مکان، سب ختم ہو جائیں گے۔

بابا کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ اُس رات وہ دیر تک سڑک پر بیٹھا رہا۔ جیسے وہ سڑک سے کچھ کہنا چاہتا ہو، یا شاید سڑک اُسے کچھ سنا رہی تھی۔

صبح جب لوگ اُٹھے، تو دیکھا کہ بابا وہیں سڑک پر لیٹا ہوا تھا۔ اُس کے چہرے پر سکون تھا، جیسے کسی طویل سفر کے بعد وہ اپنی منزل کو پہنچ چکا ہو۔ اُس کے ہاتھ میں وہی جھاڑو تھا، اور سڑک پر ایک پرانا نقشہ پڑا تھا، جس پر اس سڑک کو شہر کی مرکزی شاہراہ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔

بابا چلا گیا، لیکن اُس کی محبت، اُس کی لگن اور اُس کا پیغام وہ سڑک چھوڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک پر یادگار بنائی، کچھ نے بابا کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا، اور کچھ نے پہلی بار سڑک کو غور سے دیکھا۔

"ٹوٹی ہوئی سڑک" صرف ایک پرانی راہ نہ رہی، بلکہ ایک علامت بن گئی — یادوں کی، تاریخ کی، اور اُن لوگوں کی جو وقت کے طوفان میں بھی اپنی پہچان نہیں بھولتے۔۔

Comments

Popular posts from this blog

ایک خواب جو حقیقت بنا

Story The best time to place a bet - Bed Time Story - Bed Time Story for Kids in Urdu - Urdu Story - Kids Story.

Story Night of Terror- Horror Story - Urdu Stories for Kids - Urdu Story - Story

Comedy Story: "The Goat and the Dog" - Funny Story - Kids stories in Urdu - Urdu Stories - Stories.