The Guardians of Lore
.jpg)
شہر کے بیچوں بیچ ایک پرانی، شکستہ، دھول سے اَٹی ہوئی سڑک تھی۔ نہ اس پر کوئی روشنی تھی، نہ نشان، نہ کوئی منزل۔ لوگ اسے "ٹوٹی ہوئی سڑک" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ سڑک کسی زمانے میں بڑی اہم تھی، شاہراہ کہلاتی تھی، مگر اب صرف ایک یادگار بن کر رہ گئی تھی۔
Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar In urdu .
دنیا آگے بڑھ چکی تھی، نئی سڑکیں، پل، انڈر پاسز اور بائی پاسز بن چکے تھے۔ شہر کے نقشے میں اب اس سڑک کی کوئی خاص جگہ نہ رہی تھی۔ لیکن کچھ لوگ تھے جو اب بھی اس سڑک سے جُڑے ہوئے تھے۔
بابا کا ماننا تھا کہ سڑکیں صرف راستے نہیں ہوتیں، یہ یادیں ہوتی ہیں، خواب ہوتی ہیں، ان پر کبھی لوگوں کے قافلے چلے تھے، بچوں کی ہنسی گونجی تھی، نوجوانوں نے خواب بُنے تھے، اور بزرگوں نے ماضی کو سینے سے لگایا تھا۔
ایک دن شہر کے کچھ ترقی پسند نوجوان آئے۔ انہوں نے بابا کو بتایا کہ اب حکومت نے اس علاقے کو گرا کر ایک شاپنگ مال بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پرانی سڑک، پرانے مکان، سب ختم ہو جائیں گے۔
بابا کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ اُس رات وہ دیر تک سڑک پر بیٹھا رہا۔ جیسے وہ سڑک سے کچھ کہنا چاہتا ہو، یا شاید سڑک اُسے کچھ سنا رہی تھی۔
صبح جب لوگ اُٹھے، تو دیکھا کہ بابا وہیں سڑک پر لیٹا ہوا تھا۔ اُس کے چہرے پر سکون تھا، جیسے کسی طویل سفر کے بعد وہ اپنی منزل کو پہنچ چکا ہو۔ اُس کے ہاتھ میں وہی جھاڑو تھا، اور سڑک پر ایک پرانا نقشہ پڑا تھا، جس پر اس سڑک کو شہر کی مرکزی شاہراہ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
بابا چلا گیا، لیکن اُس کی محبت، اُس کی لگن اور اُس کا پیغام وہ سڑک چھوڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک پر یادگار بنائی، کچھ نے بابا کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا، اور کچھ نے پہلی بار سڑک کو غور سے دیکھا۔
"ٹوٹی ہوئی سڑک" صرف ایک پرانی راہ نہ رہی، بلکہ ایک علامت بن گئی — یادوں کی، تاریخ کی، اور اُن لوگوں کی جو وقت کے طوفان میں بھی اپنی پہچان نہیں بھولتے۔۔
Comments
Post a Comment