Posts

The Guardians of Lore

Image
 The Guardians of Lore داستان کے محافظ زمانہ قدیم کی بات ہے، جب کہانیاں صرف کہانیاں نہ تھیں بلکہ ان میں جادو، طاقت، اور علم پوشیدہ ہوتا تھا۔ ہر خطے میں ایک خاص داستان لکھی جاتی، اور اس داستان کی حفاظت ایک محافظ کرتا — جنہیں "محافظینِ داستان"  کہا جاتا۔ The Guardians of Lore یہ محافظ عام انسانوں جیسے نظر آتے، لیکن ان کے دل میں خاص روشنی ہوتی — وہ روشنی جو سچ، علم اور تصور کو زندہ رکھتی۔ The guardians of lore moral of the story :باب 1: راز کی کتاب ایک خاموش گاؤں "نورستان" میں، ایک کم عمر لڑکا، عارف، کتب خانے میں کام کرتا تھا۔ وہ ہر روز پرانی کتابیں جھاڑتا، انہیں ترتیب دیتا، لیکن ایک دن اسے ایک موٹی، گرد آلود کتاب ملی جس پر لکھا تھا: "کتابِ روایت – صرف اُن کے لیے جو سچائی کے متلاشی ہوں" کتاب کو کھولتے ہی الفاظ چمکنے لگے، اور ایک سادہ سا نقشہ سامنے آیا۔ نقشے کے ساتھ ایک جملہ لکھا تھا: "جب خواب حقیقت بننے لگیں، جان لو کہ تمہاری آزمائش شروع ہو چکی ہے۔" عارف کو یوں لگا جیسے کتاب نے اسے بلایا ہو۔ The guardians of lore in english :باب 2: چھپا ہوا...

Pride and Prejudice | Pride & Prejudice (2005).

Image
Pride and Prejudice   غرور اور تعصب (مکمل کہانی کا اردو خلاصہ) :ابتداء یہ کہانی انگلستان کے ایک دیہی علاقے میں رہنے والے ایک معزز خاندان "بینیٹ" کے گرد گھومتی ہے۔ مسٹر اور مسز بینیٹ کی پانچ بیٹیاں ہیں، اور ان کی سب سے بڑی فکر یہی ہے کہ ان لڑکیوں کی اچھی جگہ شادی ہو جائے۔ کہانی کی مرکزی کردار "الزبتھ بینیٹ" ہے، جو ایک ذہین، آزاد خیال اور خوددار لڑکی ہے۔ Pride and Prejudice :نیا ہمسایہ کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ایک خوشحال نوجوان "مسٹر بینگلے" قریبی حویلی میں آ کر رہائش اختیار کرتا ہے۔ وہ خوش اخلاق اور خوش مزاج ہوتا ہے، اور جلد ہی بینیٹ خاندان سے میل جول بڑھاتا ہے۔ اس کا دل سب سے بڑی بیٹی "جین بینیٹ" پر آ جاتا ہے۔ بینگلے کے ساتھ اس کا قریبی دوست "مسٹر ڈارسی" بھی آتا ہے۔ وہ بظاہر مغرور اور خودپسند دکھائی دیتا ہے۔ شروع میں الزبتھ کو ڈارسی کی طبیعت پسند نہیں آتی اور وہ اس کے بارے میں منفی رائے قائم کر لیتی ہے۔ :غرور اور تعصب الزبتھ کو "مسٹر وِکہم" نامی ایک خوش شکل فوجی افسر ملتا ہے جو اسے بتاتا ہے کہ مسٹر ڈارسی نے اس ک...

To Kill a Mockingbird | To Kill a Mockingbird Story.

Image
 To Kill a Mockingbird ٹو کل اے ماکنگ برڈ" کی کہانی (اردو خلاصہ) کہانی کا پس منظر: یہ کہانی امریکہ کی ریاست الاباما کے ایک چھوٹے سے قصبے "میکومب" میں 1930 کی دہائی کے دوران پیش آتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ میں نسلی امتیاز اپنے عروج پر تھا، اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ناانصافی عام بات تھی ۔ :مرکزی کردار -اسکاوٹ فنچ : ایک چھوٹی بچی جو کہانی کی راوی بھی ہے - جم فنچ : اسکاوٹ کا بڑا بھائی -اٹیکس فنچ : ان دونوں کا باپ، ایک دیانت دار وکیل -ٹام رابنسن : ایک سیاہ فام آدمی، جس پر جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے -میوئیلا ایول : سفید فام لڑکی، جو ٹام پر الزام لگاتی ہے -باب ایول : میوئیلا کا شرابی باپ، جو نسلی تعصب کا نمائندہ ہے -بو ریڈلی : ایک پراسرار ہمسایہ جو آخر میں ایک ہیرو ثابت ہوتا ہے To Kill a Mockingbird Story.  :کہانی کا خلاصہ کہانی اسکاوٹ فنچ کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ وہ اور اس کا بھائی جم، اپنے باپ اٹیکس فنچ کے ساتھ میکومب میں رہتے ہیں۔ اٹیکس ایک وکیل ہیں، اور ان کے اصول اور انصاف پسندی پورے قصبے میں مشہور ہے۔ ایک دن ایک سفید فام لڑکی میوئیلا ایول، ایک سیاہ فام شخص ٹ...

Skulls and bones. Skull and Bones Story.

Image
 Skulls and bones. کھوپڑیاں اور ہڈیاں اندھیری رات تھی، آسمان پر بادل گرج رہے تھے، اور بارش کی بوندیں پرانی قبرستان کی مٹی کو بھگو رہی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں لوگ دن میں بھی جانے سے کتراتے تھے، لیکن آج وہاں ایک نوجوان لڑکا، فہد، اپنی ضد اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پہنچ چکا تھا۔ Skull and Bones members فہد کو پرانی چیزوں میں دلچسپی تھی۔ وہ اکثر پرانے محلوں، کتب خانوں اور ویران گھروں کی کھوج میں نکل جاتا۔ اس بار اس نے اپنے دادا کی پرانی ڈائری میں ایک ایسی جگہ کا ذکر پڑھا جو "ہڈیوں کا خزانہ" کہلاتی تھی۔ اس خزانے کا راز صرف وہی جانتا تھا جو خوف کے سایوں میں چلنا جانتا ہو۔ قبرستان کے بیچوں بیچ ایک پرانا درخت تھا جس کی جڑوں کے نیچے ایک خفیہ دروازہ تھا۔ فہد نے زمین کُھودی، اور جیسے ہی دروازہ کھلا، ایک بدبو دار ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ نیچے سیڑھیاں تھیں، جو تاریکی میں گم ہو رہی تھیں۔ فہد نے ٹارچ جلائی اور نیچے اترنے لگا۔ ہر قدم پر زمین کی نمی اور دیواروں پر لٹکتی ہوئی ہڈیوں نے اس کا دل دہلا دیا، مگر وہ رُکا نہیں۔ آخرکار، وہ ایک بڑے ہال میں پہنچا، جہاں سینکڑوں کھ...

The Lottery Ticket By Anton Chekhov (1887).

Image
 The Lottery Ticket By Anton Chekhov (1887) لاٹری ٹکٹ — از اینٹون چیخوف (1887) ایک شام، جب سردی تیز تھی اور باہر ہوائیں چل رہی تھیں، ایوان دیمتریچ نامی ایک کلرک دفتر سے گھر آیا اور حسبِ معمول صوفے پر بیٹھ گیا۔ اُس کی بیوی، مائشا ، کھڑکی کے پاس بیٹھی اون بُن رہی تھی۔ ایوان نے اخبار اٹھایا اور ایک کونے میں پرانی لاٹری کے نمبرز دیکھے۔ اس نے یونہی بیوی سے پوچھا، "مائشا، کیا تم نے وہ لاٹری ٹکٹ ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے؟" مائشا نے مسکرا کر کہا، "ہاں، میرے پرس میں ہے۔ کیوں؟" "ذرا نمبر تو دیکھو۔ ہو سکتا ہے جیت گئے ہوں۔" مائشا جلدی سے پرس لائی اور ٹکٹ نکالا۔ ایوان نے اخبار سے نمبر پڑھا: “Series 9499, Number 26.” مائشا نے بے تابی سے ٹکٹ پر نمبر دیکھا اور حیرت سے چیخی: "یہی ہے! یہی نمبر ہے!" دونوں ایک لمحے کے لیے خوشی سے پاگل ہو گئے۔ ایوان نے کانپتی آواز میں کہا، "پہلا انعام کتنے کا ہے؟" مائشا نے جلدی سے اخبار دیکھا، "پچھتر ہزار روبل!" اب ان دونوں نے تصور میں وہ دولت خرچ کرنا شروع کی۔ ایوان نے سوچا: "میں نوکری چھوڑ دوں گا...

Hide and Seek, Hide and Seek story in urdu.

Image
  -ایک دلچسپ کہانی -چھپن چھپائی (Hide and Seek) ایک چھوٹے سے گاؤں میں چند بچے ہر شام کھیلنے کے لیے اکٹھے ہوتے  تھے۔ ان کا پسندیدہ کھیل تھا "چھپن چھپائی"۔ ان بچوں میں علی، زین، مریم، حرا اور وقاص شامل تھے۔ وہ روزانہ اسکول سے واپس آ کر گاؤں کے پاس والے چھوٹے جنگل میں کھیلنے جاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج وہ چھپن چھپائی رات کے وقت کھیلیں گے تاکہ مزہ دوگنا ہو جائے۔ سب نے ہامی بھر لی۔ رات کا وقت، چاندنی روشنی، ہلکی ہلکی ہوا اور جھینگر کی آوازیں ماحول کو اور بھی پُراسرار بنا رہی تھیں۔ وقاص کو آنکھیں بند کر کے گننا تھا۔ باقی سب دوڑ کر چھپ گئے۔ حرا ایک پرانے درخت کے پیچھے، علی جھاڑیوں میں، زین لکڑیوں کے ڈھیر کے پیچھے اور مریم ایک چھوٹے سے خالی کمرے میں جا چھپی۔ وقاص نے گنتی ختم کی اور سب کو تلاش کرنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر میں وہ زین اور حرا کو ڈھونڈ نکالا، پھر علی بھی مل گیا۔ لیکن مریم کہیں نہیں مل رہی تھی۔ سب بچے ڈرنے لگے۔ انہوں نے آوازیں دینا شروع کیں: "مریم! مریم! کہاں ہو؟" کوئی جواب نہ آیا۔ اب تو بچے پریشان ہو گئے۔ تب اچانک، وہی پرانا خالی کمرہ جہاں مریم...

Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar. Tooti Hui Sadak. Tooti Hui Sarak. Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar In English .

Image
کہانی: ٹوٹی ہوئی سڑک :مصنف: محمد جمیل اختر شہر کے بیچوں بیچ ایک پرانی، شکستہ، دھول سے اَٹی ہوئی سڑک تھی۔ نہ اس پر کوئی روشنی تھی، نہ نشان، نہ کوئی منزل۔ لوگ اسے "ٹوٹی ہوئی سڑک" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ سڑک کسی زمانے میں بڑی اہم تھی، شاہراہ  کہلاتی تھی، مگر اب صرف ایک یادگار بن کر رہ گئی تھی۔  Tooti Hui Sadak. Mohammad Jameel Akhtar In urdu .  دنیا آگے بڑھ چکی تھی، نئی سڑکیں، پل، انڈر پاسز اور بائی پاسز بن چکے تھے۔ شہر کے نقشے میں اب اس سڑک کی کوئی خاص جگہ نہ رہی تھی۔ لیکن کچھ لوگ تھے جو اب بھی اس سڑک سے جُڑے ہوئے تھے۔ ان میں سب سے نمایاں ایک بوڑھا شخص تھا، جو ہر روز صبح سویرے اپنے ہاتھ میں جھاڑو لے کر سڑک پر آتا، گرد صاف کرتا، ٹوٹی ہوئی اینٹوں کو سلیقے سے کناروں پر رکھتا، اور پھر ایک پرانی بینچ پر بیٹھ کر سڑک کو تکتے ہوئے گھنٹوں سوچتا رہتا۔ لوگ اس پر ہنستے، کہتے: "بابا! یہ سڑک اب کسی کام کی نہیں۔ چھوڑ دو یہ ضد!" لیکن بابا صرف مسکرا دیتا اور دوبارہ صفائی میں لگ جاتا۔ بابا کا ماننا تھا کہ سڑکیں صرف راستے نہیں ہوتیں، یہ یادیں ہوتی ہیں، خواب ہوتی ہیں، ان پر کبھی لوگوں...

ایک خواب جو حقیقت بنا

Image
:عنوان  ایک خواب جو حقیقت بنا شہر کی گلیاں ہمیشہ کی طرح خاموش تھیں۔ ہر روز کی طرح، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، لیکن علی کے دل میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ علی ایک معمولی سا لڑکا تھا، جو ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ سے بڑا آدمی بننے کا خواب دیکھتا تھا، لیکن حالات اسے کبھی بھی موقع نہیں دیتے تھے۔ ایک دن، جب علی اپنے گاؤں کی پہاڑیوں پر چڑھنے گیا تو اس نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ بوڑھا شخص نہایت سکون سے زمین کو دیکھ رہا تھا جیسے وہ کسی راز کو جانتا ہو جو دنیا نہیں جانتی۔ علی نے ہمت کرکے اس کے قریب جا کر پوچھا، "آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" بوڑھا شخص مسکرایا اور کہا، "میں زندگی کے رازوں کو دیکھ رہا ہوں، بیٹا۔ کیا تمہیں بھی انہیں جاننے کی خواہش ہے؟" علی نے حیران ہو کر کہا، زندگی کے راز؟ کیا یہ واقعی ممکن ہے؟" بوڑھے نے سر ہلا کر کہا، ہر انسان کے دل میں ایک خواب ہوتا ہے، اور وہ خواب ہی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ علی نے بے ساختہ پوچھا، "میرا خواب تو بڑا آدمی بننے کا ہے، لیکن مجھے کبھی موقع نہیں ملتا۔" بوڑھا شخ...

Story The best time to place a bet - Bed Time Story - Bed Time Story for Kids in Urdu - Urdu Story - Kids Story.

Image
کہانی: شرط لگانے کا بہترین وقت رمضان کی وہ گرم دوپہر تھی، جب علی اپنے دوست حسن کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔ سورج اپنے پورے جوبن پر تھا اور گرمی سے بچنے کے لیے سب لوگ چھاؤں میں تھے، لیکن علی اور حسن کے لیے گرمی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ ان کے دماغ میں صرف ایک ہی بات تھی، اور وہ تھی "اگلا شاٹ مارنے کا موقع"۔ علی بیٹنگ کر رہا تھا اور حسن بولنگ کر رہا تھا۔ دونوں کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا کہ کون بہترین کھلاڑی ہے۔ حسن نے گیند پھینکی، علی نے زور سے بیٹ گھمایا، اور گیند ہوا میں اڑتی ہوئی گلی کے کونے پر کھڑے درخت کے قریب جا گری۔ "شاٹ!" علی نے خوشی سے نعرہ لگایا۔ حسن مسکراتے ہوئے بولا، "ابھی دیکھتے ہیں، آخری اوور باقی ہے!" اچانک، گلی کے ایک کونے سے ایک آدمی نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ دونوں دوستوں کے قریب آیا اور کہا، "ارے لڑکو، کیا تم دونوں کو شرط لگانے کا شوق ہے؟" علی اور حسن ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھنے لگے۔ "شرط؟ کس چیز کی شرط؟" علی نے پوچھا۔ میں تمہ...

Story Night of Terror- Horror Story - Urdu Stories for Kids - Urdu Story - Story

Image
  خوفناک رات کی کہانی رات کا وقت تھا، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ اندھیرے میں چھپی ہوئی یہ بارش گاؤں کے لوگو‌ں کو بےچین کر رہی تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں راتیں عام طور پر پرسکون ہوتی تھیں، لیکن اس رات ہر چیز عجیب اور خوفناک محسوس ہو رہی تھی۔ رازدار گاؤں کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں کے لوگ کبھی شام کے بعد باہر نہیں نکلتے تھے۔ پرانے لوگوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کی حد سے باہر ایک پرانی حویلی ہے، جو آسیب زدہ ہے۔ وہ جگہ کئی سالوں سے ویران تھی، لیکن وہاں سے عجیب و غریب آوازیں اور چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ علی ایک نوجوان تھا جو ہمیشہ ان باتوں کو مذاق سمجھتا تھا۔ وہ اپنی عقل پر بھروسہ کرتا اور گاؤں والوں کی باتیں سن کر ہنستا رہتا۔ ایک رات، دوستوں کے ساتھ شرط لگاتے ہوئے اس نے کہا، "میں اس حویلی میں جا کر واپس آؤں گا اور سب کو بتاؤں گا کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔" رات کے وقت، جب گاؤں سو رہا تھا، علی نے اپنا ٹارچ اٹھائی اور حویلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ گاؤں کے راستے میں ہوا سرد ہو چکی تھی، اور ہر قدم پر علی کا دل دھڑکنے لگا۔ لیکن وہ اپنے ارادے پر قائم رہا۔ کچھ...